۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
علامہ اشفاق وحیدی

حوزہ/ علماء دینِ اسلام کے سفیر ہیں، ہمارا کردار اور ہمارا اخلاق اتنا بلند ہونا چاہئے کہ سامنے والا اسلام پر سٹڈی اور مطالعہ کیلئے مجبور ہوجائے اور اس پر تحقیق کرے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار نے آسٹریلیا سے آئے مبلغ دین جناب حجۃ الاسلام والمسلمین اشفاق وحیدی سے اس ملک میں ان کی دینی فعالیت اور آسٹریلیا میں تبلیغِ دین کے مواقع کے موضوع پر حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر میں خصوصی انٹرویو و سیر حاصل گفتگو کی، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:

ہمارا کردار اور ہمارا اخلاق اتنا بلند ہونا چاہئے کہ لوگ اسلام کے گرویدہ بنیں

سوال: براہِ کرم، سب سے پہلے مختصر طور پر ہمارے قارئین کے لئے اپنا تعارف پیش کریں؟

علامہ اشفاق وحیدی: میرا تعلق پاکستان کے شہر راولپنڈی سے ہے۔ میں اپنی دینی تعلیم کے لئے 1985ء میں پاکستان کے شہر راولپنڈی میں مدرسہ شہید باقرالصدر (رہ) میں داخل ہوا۔ 1985ء سے 1990ء تک تقریبا چھ سال تک اس مدرسہ دینیہ میں تعلیم حاصل کی اور پھر 1990ء میں اعلی حوزوی تعلیم کے لئے قم آگیا اور تقریبا ایک سال تک قم المقدسہ مدرسہ موسی ابن جعفر(ع) میں رہا۔ ایک سال قم میں رہنے کے بعد حوزہ علمیہ ولیعصر(عج) خوانسار منتقل ہوا۔ وہاں تقریبا چار سال مدرسہ علمیہ خوانسار میں رہا پھر واپس مزید دینی تعلیم کے لئے حوزہ علمیہ قم آگیا اور اپنی تعلیم کو شہرِ عشِق آلِ محمد (ص) میں جاری رکھا۔ ۱۹۹۹ء میں میں اپنے مدرسہ علمیہ شہید باقرالصدر (رہ) پاکستان اعزام ہوکر گیا۔ اس اعزامی مدت کے بعد تین سال کیلئے شام میں علمِ دین حاصل کیا اور اس کے بعد پاکستان واپسی ہوئی اور وہاں اپنی تبلیغی، ثقافتی اور مذہبی فعالیت انجام دی۔ ایک عرصہ تک تحریکِ جعفریہ سے وابستہ ہو کر ضلعی اور مرکزی سطح پر ذمہ داریاں انجام دیں اور پھر میں نے اپنی دینی خدمات کے لئے 2012ء میں پاکستان سے آسٹریلیا شفٹ ہوا اور اب بھی وہاں مختلف دینی خدمات انجام دے رہا ہوں۔

آسٹریلیا کی حکومت باقی مسلم ممالک کی طرح ایران سے بھی تعلقات رکھتی ہے اور مختلف امور میں ان کا آپس میں تبادلۂ خیال رہتا ہے۔

سوال: ایران اور آسٹریلیا کے ایک دیرینہ تعلقات ہیں۔ اس رابطے کی اہمیت اور خصوصیات کے بارے میں آگاہ فرمائیں؟

علامہ اشفاق وحیدی: آسٹریلیا میں ایرانی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اپنے اپنے عقائد و مذہب کے مطابق وہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ باقی ملکوں کی طرح ایرانی حکومت بھی اپنے شہریوں کو سفارتی خدمات سمیت مختلف قسم کا تعاون فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں خود مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے ۔ آسٹریلیا کی حکومت باقی مسلم ممالک کی طرح ایران سے بھی تعلقات رکھتی ہے اور مختلف امور میں ان کا آپس میں تبادلۂ خیال رہتا ہے۔

ہمارا کردار اور ہمارا اخلاق اتنا بلند ہونا چاہئے کہ لوگ اسلام کے گرویدہ بنیں

سوال: ملک آسٹریلیا میں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے اور اہل تشیع کی اس میں کتنی تعداد ہے؟

علامہ اشفاق وحیدی: آسٹریلیا کی آبادی تقریبا 27 ملین کے قریب ہے اور اس میں مسلمان آبادی تقریبا 3 ملین ہے۔ اور اس میں اگر تشیع کی آبادی کو دیکھا جائے تو تقریبا 1/3 ملین تک ہوگی۔ آسٹریلیا میں مذہب کے اعتبار سے بہت اچھا ماحول ہے جہاں پر تمام مذاہب کو مکمل مذہبی رواداری اور مذہبی حوالے سے تمام سہولیات میسر ہیں۔ حتی کہ ان مراسم اور پروگرامز کو آسٹریلین گورنمنٹ کوریج بھی کرتی ہے۔ اسی طرح وہاں حجاب وغیرہ کے لحاظ سے کوئی پرابلم نہیں ہے یعنی الحمد للہ وہاں پر ہمیں مکمل مذہبی آزادی ہے اور اس کو آسٹریلین حکومت حمایت کرتی ہے۔

" آسٹریلیا میں مذہب کے اعتبار سے تمام مذاہب کو مکمل آزادی اور سہولیات ہیں "

سوال: ملک آسٹریلیا میں اپنی دینی و اسلامی تبلیغات کے بارے میں بیان فرمائیں؟

علامہ اشفاق وحیدی: میں تقریبا وہاں پر بارہ سال سے ہوں۔ الحمد للہ ہم نے وہاں پر اسلامک سینٹرز کا سلسلہ شروع کیا۔ ان سینٹرز میں نماز کیلئے لوگ آتے ہیں اور کچھ عرصہ سے ہم نے نماز جمعہ کو شروع کیا ہے۔ اسی طرح ماہ رمضان میں ہم نے کوشش کی کہ وہاں لوگوں کو افطار دیا جائے۔ ان سینٹرز میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ میل جول کو فروغ دیا جائے، وہاں ان کے مسائل کو سنا جائے اور بچوں کے تربیت کے لحاظ سے اور مختلف امور پر ان کی رہنمائی کی جائے۔  اور پھر اس حوالے سے آسٹریلیا میں مذہبی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔جس کی بہت اچھی بات یہ ہے کہ آسٹریلین گورنمنٹ کی طرف سے اسے بہت مثبت اور اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ ہر تین ماہ بعد ایک "بس ٹور"منعقد ہوتا ہے جس میں تمام مذاہب کے افراد بس میں سوار ہو کر،مختلف عبادت گاہوں کا وزٹ کرتے ہیں۔ مسیحوں کے چرچز میں، مساجد میں اور اسی طرح دوسرے مذاہب کی عبادتگاہوں میں سب افراد کو لے جایا جاتا ہے جس سے بہت اچھا میسج یہ جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے اور بہت سی نیگٹو چیزیں پازیٹو امور میں تبدیل ہوجاتی ہیں ۔ تو یعنی اتحاد، وحدت و اخوت اور رواداری کا اس حوالے سے آسٹریلیا میں ایک اچھا ماحول ہےجس کی وجہ سے ہمیں دینی و اسلامی خدمات میں کبھی کوئی خاص مشکل پیش نہیں آتی ہے۔

ہمارا کردار اور ہمارا اخلاق اتنا بلند ہونا چاہئے کہ لوگ اسلام کے گرویدہ بنیں

سوال: کچھ لوگ وہاں آپ کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام بھی ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے بتائیں اور آپ کی نظر میں ایک مبلغ کو دینی خدمات کی انجام دہی کے لئے کیا طریقہ کار اپنانا چاہئے؟۔

علامہ اشفاق وحیدی: دیکھئے! میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام  کا فرمان ہے کہ "اگر آپ نے تبلیغ کرنی ہے تو سب سے پہلے اپنے کردار پر توجہ دیں"۔ لہذا اگر آپ کو کردار اسلامی ہو تو آپ کو بولنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ مذہب اسلام اختیار کریں۔

علماء دینِ اسلام کے سفیر ہیں۔ ہمارا کردار اور ہمارا اخلاق اتنا بلند ہونا چاہئے کہ سامنے والا اسلام پر سٹڈی اور مطالعہ کیلئے مجبور ہوجائے اور اس پر تحقیق کرے۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہم اپنے دینِ اسلام کے سفیر ہیں۔ ہمارا کردار اور ہمارا اخلاق اتنا بلند ہونا چاہئے کہ سامنے والا اسلام پر سٹڈی اور مطالعہ کیلئے مجبور ہوجائے اور اس پر تحقیق کرے۔ وہاں ایک غیرمسلم خاتون کو میں نے  بی بی زینب سلام اللہ علیہا کا نام سرچ کرنے اور مطالعہ کرنے پر ترغیب کی تو یقین جانئے کہ وہ خاتون ایک ہفتہ بعد روتے ہوئے واپس آئیں اور بی بی سلام اللہ علیہا کے کردار سے انتہائی متاثر ہوئیں۔ لہذا میری نظر میں موجودہ دور میں تبلیغ بہت آسان ہوگئی ہےصرف آپ اپنے اخلاق و کرادر پر توجہ دے کر دوسروں کو ایک راستہ دکھا دیں تو تمام دینی مواد وہ خود سرچ کر لیتے ہیں اور حقیقت ان کے سامنے آشکار ہو جاتی ہے۔

سوال: آسٹریلیا کی گورنمنٹ کا وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟

علامہ اشفاق وحیدی: بہت اچھا ہے، مثبت ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے آپ اپنے مذہب کی ترویج کیلئے، تبلیغ کررہے ہیں تو وہ آپ کی حمایت کرتے ہیں۔ بس آپ کی نیگیٹو اور کسی دوسرے مذاہب کے خلاف فعالیت نہیں ہونی چاہئے اور اس کیلئے بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں۔

ہمارا کردار اور ہمارا اخلاق اتنا بلند ہونا چاہئے کہ لوگ اسلام کے گرویدہ بنیں

سوال: آسٹریلیا میں غیر مسلم افراد کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کیسا ہے؟

علامہ اشفاق وحیدی: جیسا کہ میں نے اوائل میں آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ وہاں پر مذہب کو فرنٹ پہ نہیں رکھتے ہیں۔ اگر آپ اچھے انسان ہیں تو وہ اس کی تعریف کریں گے۔ مثلا میں آپ کو اپنی مثال دوں کہ وہاں میرے جو ہمسائے ہیں ایک طعف آسٹریلین ہیں اور دوسری طرف سری لنکن ہیں اور دونوں ہی غیرمسلم ہیں لیکن ہم آپس میں اس طرح رہ رہے ہیں کہ کبھی تصور نہیں کیا کہ یہ غیر مسلم ہیں یا وہ کبھی تفریق کریں کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم ان کے ساتھ اپنے کھانوں وغیرہ کو شیئر کرتے ہیں تو اسی طرح مختلف تہوار پر وہ اپنی بعض چیزوں کو ہمارے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔

آسٹریلیا کے افراد آپ کی انسانی خوبی کو مدنظر رکھتے ہیں اور کسی بھی قسم کی مذہبی تفریق کو روا نہیں رکھا جاتا ہے۔ تو کلی طور پر وہاں کے افراد آپ کی انسانی خوبی کو مدنظر رکھتے ہیں اور کسی بھی قسم کی مذہبی تفریق کو روا نہیں رکھا جاتا ہے۔ حکومت بھی ان چیزوں میں تعاون کرتی ہے اور البتہ باقی دنیا کی طرح وہاں بھی بعض شرپسند عناصر ہیں جن کے خلاف حکومت ہمیشہ کاروائی کرتی رہتی ہے لہذا وہ سراٹھا نہیں پاتے ہیں جو کہ انتہائی مثبت چیز ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .